علماے اہل سنت اور اردو شروحات


علماے اہل سنت اور اردو شروحات





از۔۔۔۔۔۔۔۔محمد گل ریز رضا ،مصباحی ،بریلی شریف
یوپی ۔





خادم التدریس جامعۃ المدینہ فیضان عطار تاج پور
(ناگ پور)۔





Mob: whatsapp .8057889427





محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سر زمین عرب میں ہوئی تو آپ کے
وجود مسعود سے پوری دنیا روشن وتابناک ہوگئی ،آپ نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو اسلام کی
راہ دکھائی ،اور ایک معبود برحق کی عبادت کا حکم دیا ،آپ کے سحر انگیز کلام بلیغ
نے ان کے دلوں پر ایسا اثر کیا کہ وہ دل وجان سے آپ کے
گرویدہ ہوگیے ،اور آپ پر ایمان لاکر ایسے سچے امتی ہونے کا حق ادا کیا کہ دنیا کے
بڑے بڑے ان کے کردار ،وفا اور محبت کی مثال لانے سے قاصر ہیں ۔ان نفوس قدسیہ نے
آپ کی زندگی کے ہر ہر گوشے کو اپنے سینوں میں 
محفوظ کرلیا اور بعد والوں نے آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ  کو کتابوں اور دفاتر میں جمع کرلیا،جب اسلام
حجاز سے نکل کر دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں پہنچا تو اب ضرورت محسوس
ہوئی  کہ آپ کی سیرتِ طیبہ  کو مختلف زبانوں میں منتقل کرکے ہر طرح کے
لوگوں کو آپ کی مبارک زندگی سے متعارف کرایا جائے چنانچہ عربی زبان کو مختلف
زبانوں میں ڈھالا گیا ،پھر مختلف علوم وفنون ایجاد ہوئے ،مثلاً علم فقہ ،نحو صرف
وغیرہ معرض وجود میں آئے اور مختلف علوم وفنون میں کتابیں لکھی گئیں۔





جب اسلام کی ضیا بار کرنیں ہندوستانی لوگوں کے گھروں میں
پہنچیں اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے تو پھر آپ کی سیرت سے واقفیت
کے لیے عربی کتبورسائل کو فارسی زبان میں منتقل کیا گیا ،اس وقت ہندوستان کی اصلی
زبان فارسی تھی ،لیکن جب مغلیہ سلطنت کا نام ونشان مٹ گیا اور اقتدار کی باگ وڈور
غیروں کے ہاتھ میں چلی گئی تو مختلف زبانوں کو فروغ ملا،اس وقت ہندوستا ن غیر
منقسم تھا ، ان میں سے ایک زبان اردو بھی ہے۔





انگریزوں نے یہاں حکومت کے لیے علم وفضل کے گھرانے شاہ عبد
الرحیم کے گھر سے ایک ایسے شخص کا استعمال کیا ،جس کا نام اسمعیل دھلوی تھا، اور
اُس نے ایک کتاب  تقویہ الایمان لکھی جس
میں بہت زیادہ غلط باتیں تھیں ،جس کا اُس نے خود اعتراف کیا ہے،انگریزوں نے موقع
کا فائدہ اٹھایا اور اُس کتاب کو شائع کرایا جب یہ کتاب لوگوں کے  ہاتھوں میں پہنچی تو اآپسی  کشمکش 
اور لڑائیاں شروع ہوگئیں ،اور اس طرح یہاں کے مسلمان دو حصوں میں تقسیم
ہوگئے ۔ایک اسمعیل دھلوی کے پیروکار ہوئے جو دیوبندی وہابی کہلائے ،اور دوسرے اپنے
بزرگوں کے عقائد سابقہ پر برقرار رہے اور سنی کے نام سے موسوم ہوئے ورنہ اس سے
پہلے دنیا بھر میں مسلمانوں میں دو فرقے موجود تھے ،ایک سنی دوسرے شیعہ ،اگر چہ
کافی محنت،اور علماے حق کی بے لوث خدمات اور قربانیوں سے ہندوستان انگریزوں کے
ہاتھ سے آزاد ہوگیا لیکن وہ زہریلا پودا جو انہوں نے لگایا تھا آج بھی باقی ہے
اور اب باقاعدہ کئی شاخیں بن چکی ہیں ۔کوئی دیوبندی ہے ،وہابی ہے،غیرمقلد ہے وغیرہ
وغیرہ ۔





لیکن بڑا افسوس ہے کہ جب سنی دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے تو
دیوبندی مکتب فکر نے ہر میدان میں ترقی کی ،خواہ وہ تعمیری کا  م ہو،یا تصنیفی ،یا شروحات وادب جیسا عظیم کام
ہو،انہوں نے باقاعدہ اپنے بڑے بڑے عظیم الشان مدارس قائم کئے ،علما تیار کئے ،عربی
ادب کی بے شمار اور انوکھی کتابیں لکھیں ،پوری درسِ نظامی میں تمام کتب کی شروحات
آسان اردو میں پیش کیں ،دنیاوی تعلیم میں بھی سنی مکتب ِ فکر سے کافی آگے چلے
گئے ،آج ہر طرح کی رائج لغت بھی انھیں کی دین ہے ،آج ہر کتاب کی شرح ان کے کسی
مولوی کی نظر آتی ہے ،لیکن  سنی مکتب فکر
کی بات کریں تو اس نے تعمیری کام کے بجائے تخریبی کام زیادہ کیا ،کام کے افراد کم
ہوئے ،سجادہ نشین ،بینک میں بے شمار پیسہ جمع کرنے والے،مریدوں کی کثرت کرنے
والے،جلوس میں پہل کرنے والے،جاہل اور تعریفات میں مبالغہ آرائی کرنے والے اسی
جماعت میں کثرت سے نظر آتے ہیں ،اور جو اگر بلند مقام پر پہنچ گیا تو اُس نے اپنے
ماتحت کی بلندی کو نہیں چاہا ،نہ خود کام کیا نہ کسی کو کرنے دیا ۔





آج طلبہ کی کثیر تعداد دیوبندیوں کی شروحات کا استعمال
کررہی ہے  ،اور اس کی مدد سے فراغت کے
بعد  درس وتدریس کر رہی ہے ،لیکن ہماری جماعت
کے تنگ نظر ،سادہ ذہن ،اور پرانی سوچ رکھنے والے آج تک یہی غورو فکر کر رہے ہیں
کہ شروحات نہ لکھی جائیں ،اس سے طلبہ کی صلاحیتیں خراب ہوں گی ۔





میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر شروحات سے صلاحیتیں بگڑتی ہیں
تو شروحات پر زیادہ کام کرنے والے سنی ہیں یا دیوبندی؟ یقینًا زیادہ کام کرنے والے
دیوبندی ہیں ،تو آپ کے قاعدہ کے مطابق ان کے یہاں سے فارغ طلبہ کو بالکل جاہل
ہونا چاہیے تھا ،کیوں کہ جو لوگ باقاعدہ شروحات لکھ رہے ہیں اور استعمال کرا رہے
ہیں ،تو ان کی صلاحیتیں تو معدوم ہونی چا ہیے تھیں ،لیکن  تجربات اس کے بر عکس ہیں ،کہ ان کے یہاں سے
زبردست علم وفن کے قابل افراد فارغ ہورہے ہیں ،اور ہمارے یہاں تو یہی حال ہے سب
بین بین ہے ،مزید دوسری بات ہمارے یہاں کام کے افراد کم ہیں ،وہ افراد جو ہر وقت
یہ ترانہ گاکر کہ شروحات سے صلاحتیں بیکار ہوتی ہیں دوسروں کو متنفر کرتے ہیں اور کام
کرنے والوں کے حوصلہ کو بھی پست کرتے ہیں ،حالانکہ ان کے تعلیمی زمانہ کو دیکھیں
تو پہلی فارسی بھی شرح سے حل کرتے تھے،لیکن اب چوں کہ عروج مل  گیا اور صلاحیت مند ہوگئے تو اب زور دار
آوازمیں کہتے ہیں کہ بچوں کی صلاحیتیں خراب ہوں گی اور کہنا بھی ضروری ہے ورنہ ان
کی پول کھل جائے گی  کہ حضرت بھی پہلی
فارسی شرح سے حل کرتے تھے ،اور اگر آپ کے بقول شرح سے صلاحیتیں خراب ہوتی ہیں تو
عربی مقولہ ’’کل اناء یترشّح بما فیہ‘‘(ہر
برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اُس میں ہوتا ہے)۔تو آپ کے اندر اگر کچھ دم خم ہے تو
دیوبندیوں کا بدل پیش کریں ،ان کی طرح لغت مارکیٹ میں لائیں ،لیکن کیسے لائیں گے
کہ ایسے برتن سے ٹپکتا ہے جس میں کچھ ہوتا ہے اور یہاں تو سب خالی خالی ہے اور
حالات کے پیش نظر بد مذہبوں کا برتن پُر ہے اس لیے عمدہ عمدہ شروحات معرض وجود میں
آرہی ہیں ،لیکن اس سے یہ مفہوم مستعار نہ کیا جائے کہ دیوبندیوں کی طرف داری  یا تعریف مقصود ہے ،بلکہ اپنی قوم کے ان سادہ
،اور تنگ نظر اور زمانہ سے غافل لوگوں کے ضمیر کو ایک زخمی پیغام ہے کہ بیدار ہوکر
دیکھیں کہ زمانہ کہاں پہنچ گیا ہے ،ہوش کے ناخن لیں ،اور پرانی فکر کو چھوڑ کر کوئی
نئی فکر کو جگہ دیں ،اور زمانے کے ساتھ موافقت کریں ۔





دوران تعلیم میرا بھی یہی ذہن تھا کہ شروحات نہ لکھی جائیں
کہ اس سے طلبہ کی صلاحتیں خراب ہوتی ہیں ،لیکن ایک دن جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی
لائبریری میں کوئی کتاب تلاش کررہا تھا کہ میری نظر منھاج العربیہ اول کی شرح
مشکوۃ العربیہ پر پڑی ،جب اس کا مطالعہ کیا  تو معلوم ہوا کہ  بہت سارے مقامات پر حذف سے کام لیا ہے اور
سوالات کے جوابات بھی پیش نہیں کیے ہیں ،بعض مقامات پر تمرین بھی حل نہیں کی ہیں
،اتنی ساری خرابیوں کے باوجود اس کی خریدو فروخت برابر جاری ہے،اپنے اور غیر اسے
بلا روک وٹوک استعمال کر رہے ہیں ،وہیں سے میرے دل میں ایک جذبہ  پیدا ہوا کہ یہ لوگ کیسی بھی شرح لکھ دیں پھر
بھی خوب چلتی ہے تو اگر اس طرح کی کتابوں پر سنی حضرات اچھی طرح سے کام  کریں تو ضرور کا میابی ملے گی ،اور محنت ضرور
رنگ لائے گی ،بس میں نے منھاج العربیہ سے کام کی شروعات کی ،اور اللہ کے فضل سے
کامیابی ملی  اور جلد ہی اس کے دو ایڈیشن
مارکیٹ میں آتے ہی ختم ہوگئے اور اب تک منھاج العربیہ  کے چار حصوں کی شرح مصباح العربیہ کے نام سے
ہوچکی ہے اور اللہ ورسول کی مدد کی مدد 
برابر شامل  حال رہی  کہ میں نے لاکھ مخالفتوں کے باوجود کبھی ہمت
نہیں ہاری اور پیچھے پلٹ کر  نہیں دیکھا
،اور حافظ ملت کے فرمان ’’ہر مخالفت کا جواب کام ہے ‘‘ اُس کو اپنے پیش نظر
رکھا اور جوابی کاروائی نہیں کی ،اب تک اللہ تعالی کے فضل سے کم وبیش بیس کتابوں
پر کام ہوچکا ہے جن میں سے دس سے زیادہ طبع ہوچکی ہیں اور کچھ باقی ہیں ،اور الحمد
للہ سب شروحات بے حد مقبول ہیں ۔حافظ ملت کے ایک فرمان ’’میں نے مخالفت کرنے
والوں کا جواب نہیں دیا بلکہ اپنے کام کی رفتار تیز کردی اس کا فائدہ یہ ہوا کہ
مخالفین میرے موافق ہوگئے  اور کام بھی
مکمل ہوگیا
‘‘ کے مطابق میں نے بھی کوئی  جواب نہیں 
دیا ،حد تو یہ جب میری پہلی شرح مصباح العربیہ منظر عام پر آئی تو اُس کا
اعلان نامہ جب میں نے چسپاں کیاتو میرے سامنے لوگوں نے حاشیہ لگایا ،میری اور بھی
تحریروں پر طنز کی گئی لیکن میں نے صبر کیا،اور اب حال یہ ہے کہ ان میں کافی موافق
ہوچکے ہیں ،ضرورت پڑنے پر شرح ارسال کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں ،لیکن میں کسی کا
نام ظاہر نہیں کروں گا کہ پردے میں ہی بھلائی ہے ۔





قابل مبارک باد ہیں وہ سنی شارحین جو اس میدان میں اپنی
وسعت کے مطابق کوششیں کر رہے ہیں اور شروحات کو منظر عام پر لارہے ہیں ،میری
معلومات کے مطابق سنیوں میں تقریبًا دس بارہ افراد ہیں جواس میدان میں کافی متحرک
فعال نظر آرہے ہیں اور کام کررہے ہیں اللہ تعالی ان کی شروحات کو قبول عام نصیب
کرے ۔





ہمت نہیں کہ میں ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرسکوں کہاں وہ
اور کہاں میں ،ابھی میں اس میدان کا طفل ِ مکتب ہوں ،لیکن میں اپنے ان سنی شارحین
کو ناقص مشورہ دیتا ہوں اگر اچھا لگے تو اس پر عمل کریں ورنہ آپ کی مرضی ۔





کہ آپ کسی بھی کتاب کی کوئی اردو شرح لکھیں تو سب سے  پہلے آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس کتاب کی مارکیٹ
میں جتنی بھی شروحات ہیں انھیں یکجا کریں اور سب کا ایک طائرانہ جائزہ لیں کہ ہر
ایک نے اپنی شرح میں کیا خوبی رکھی ہے اور کیا کمی ہے پھر اس کے بعد آپ اپنی شرح
میں ان ساری خوبیوں کو جو الگ الگ تھیں جمع کردیں ،اور جس درجہ کی شرح لکھنی ہے اس
درجہ کے متوسط طلبہ کے ذہن کا خیال رکھتے ہوئے الفاظ وعبارت کا استعمال
کریں،سوقیانہ اور نہ بہت اعلی درجہ کی اردو کا استعمال کریں ،ہر وقت آپ کے ذہن
میں یہ بات حاضر رہے کہ ان خوبیوں کو اگر شرح میں جگہ دیدی جائے تو شرح کافی مقبول
ہوگی ،گاہ بگاہ اس میدان کے لوگوں سے مشورہ بھی کرتے رہیں ،ان شاء اللہ آپ کی
محنت رنگ لائے گی ۔





ہمارے جو سنی عالم اس میدان میں کام کر رہے ہیں وہ ہو سکے
تو واٹس ایپ پر گروپ کی شکل میں رابطہ میں رہیں اور آنے والی شروحات کے متعلق
تبادلہ خیالات کرتے رہیں کہ ہم اپنی شرح میں کیا چھوڑیں اور کیا شامل کریں اور ایک
دوسرے سے اپنی کتاب بھی چیک کرالیں ،اس سے کئی فائدے ہوں گے ایک تو آپ کی کتاب
خوبیوں کا مجموعہ  ہوجائے گی ،دوسری
یہ   کہ جلدی چیک بھی ہوجائے گی ،اور جب
متعدد نظروں سے گزرے گی تو اُس کا مقام کچھ اور ہی ہوگا  کیوں کہ ایک نظر سے دو نظریں اچھی ہوتی ہیں ۔





آپ شرح  ایسی پیش
کریں کہ اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ چھوڑیں کہ مخالف کو  اس پر دوبارہ کام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ آئے
،ابھی چند دن پہلے بریلی شریف حاضری ہوئی تو وہاں اپنے کچھ سنی شارحین کی شرحیں
دیکھیں تو ان میں کچھ کمیاں محسوس ہوئیں مجھے کہا گیا کہ آپ اس پر کام کریں میں
نے کہا کہ  جب ہمارے سنی کام کر چکے ہیں تو
میں ان کو اطلاع کردیتا ہوں اگلے ایڈیشن میں اس کمی کو دور کردیں گے میرے لیے نیے
طریقے سے کرنا ایک لمبا کام ہوگا اور پھر اس معمولی خوبی کے لیے ان کی محنت ضائع
جائے گی ،اس لیے میں نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور انہیں اس چیز کا احساس دلایا
جسے انہوں نے خوشی خوشی قبول کیا ورنہ عام طور پر لوگ چھوٹوں کی بات قبول کرنے میں
اپنی توہین سمجھتے ہیں ،جبکہ میرا اپنا نظریہ یہ 
ہے کہ انسان کو خوبی جہاں سے ملے قبول کر لینا چاہیے ،انسان اپنے اخلاق
،اعمال اور کارناموں سے بلند ہوتا ہے حسب ونسب سے نہیں ۔





آپ اگر ایک اچھا شارح بننا چاہتے ہیں تو مارکیٹ میں موجود
شروحات کو سامنے رکھ کر کام کریں گے تو کامیابی ضرور ملے گی ورنہ شروحات کی فہرست
لمبی ہوجائے گی اور طلبہ کی گالیوں سے ضیافت ہوگی 
جس کا مشاہدہ ہوتا  رہتا ہے ۔پھر
انہوں نے مجھ سے گلستاں اور نور الایضاح کی شرح کرنے کے لیے کہا ،میں نے ان سے کہا
کہ کیا مارکیٹ میں ان کی شروحات ہیں تو انہوں نے گلستاں  کی شرح دکھائی ،جو کسی دیوبندی کی تھی جب اس کا
مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اس نے اپنی شرح میں حل لغات ،ترجمہ سب کچھ کردیا ہے اور
یہی چیز ایک شرح میں درکار ہوتی ہے ،اب مجھے اس پر کام کرنے کے لیے کوئی وجہ سمجھ
میں نہیں آئی ،اسی طرح نور الایضاح کی شرح انوار الایضاح دکھائی  جس کے شارح مفتی وسیم  قاسمی ہیں ایک اعلی اور جامع شرح لکھی ہے ،اب
اس پر کام کے لیے کدھر سے راہ نکانی جائے جن کی دوسری شرح انوار القدوری ہے وہ
بھی  لاجواب ہے ۔





کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اغیار اپنی شرح  میں ایسی کوئی غلطی بہت کم ہی کرتے ہیں جس سے
دوسرے کے لیے اس پر کام کا موقع فراہم ہو ،اور ہمارے یہاں زیادہ تر عبارت پر اعراب
نہ لگانے کی غلطی بہت ہوتی ہے جس سے طلبہ کے یہاں اس کا معیار گرجاتا ہے ،جیسے ہی
اعراب والی شرح مارکیٹ میں آتی ہے وہ مقبول اور یہ غیر مقبول  ہوجاتی ہے۔





ایسے ہی ہمارے یہاں قدوری کی شرح ایضاح الشکوری ہے جب تک
قدوری کی کوئی اچھی شرح نہیں تھی طلبہ اسے ہی استعمال کرتے تھے لیکن جب انوار
القدوری آئی تو اس کا مقام ومرتبہ اور چلن جاتا رہا ۔





آخیر میں اپنے تمام شارحین کی بارگاہ میں ایک مشورہ پیش
کرتا ہوں کہ سب رابطہ میں ہوجائیں یا جن جن کو میرا یہ پیغام پہنچے وہ ان سے رابطہ
کرادیں یا میرا نمبر انہیں دیدیں اور میرا مشورہ بیان کریں ان شاء اللہ مجھے امید
ہے جب مل کر کام کریں گے تو کام اعلی اور نمایاں ہوگا اور اس سے یہ بھی فائدہ ہوگا
کہ ایک صاحب کا کسی کتاب پر کام کرنے کا ارادہ ہے حالانکہ دوسرے مکمل کر چکے ہیں
تو ان کی بھی محنت ضائع نہیں ہوگی اور ان صاحب کی توانائی کسی اچھے کام میں صرف
ہوگی ،ہم اپنے طلبہ کو منع کرنے یا پابندی لگانے کے باوجود بھی اغیار کی شروحات سے
نہیں روک پارہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اس میدان میں اتر جائیں اور اچھی شروحات
معرض وجود میں لائیں ۔فرض کریں اگر دس سنی شارحین اس میدان میں کام کرتے ہیں اور
ہر فرد سال میں  ایک اچھی شرح تیار کرتا ہے
تو اس طرح ہر سال ہمارے سنیوں کی دس شرحین مارکیٹ 
میں آجائیں گی اور کچھ سالوں میں اغیار کے احسان سے خود اور اپنے طلبہ کو
بھی آزاد کردیں گے ،پھر بعد میں اپنی لغات بھی منظر عام پر آجائیں گی ۔





میرا یہ پیغام تمام سنی شارحین تک پہنچ جائے اور جو اس خبر
کو پہنچانے میں مدد کرے اللہ تعالی اسے مدینہ منورہ کی حاضری نصیب کرے ۔





یہ پیغام بعض دلوں میں کانٹے کی طرح  تکلیف دے گا ،لیکن مجھے امید ہے کہ اکثر حضرات
میری اس راے سے اتفاق ضرور کریں گے ،اللہ تعالی ہم سب کی بے حساب مغفرت فرمائے
،اور پیارے حبیب ﷺ کے مدینے کی حاضری نصیب فرمائے ۔


Post a Comment

0 Comments