ایک مسافر ملک عد م کی طرف


ایک مسافر ملک عد م کی طرف





ناشر رضویات ،مرتب جامع الاحادیث  ،فخر بریلی            حضرت علامہ مولانا   محمد حنیف خان رضوی        بریلوی صدر المدرسین وشیخ الحدیث جامعہ
نوریہ رضویہ بریلی شریف کے بڑے صاحبزادے حضرت علامہ مولانا منیف رضا خان ایک متحرک
فعال اور ذی استعداد انسان تھے ،موصوف بڑے ملنسار،خوش اخلاق تھے،ہر ایک سے خندہ
پیشانی سے ملتے تھے  آج وہ ہمارے درمیان
نہیں رہے لیکن ان کی محنتیں اور اکیڈمی کے لیے بے لوث خدمات دیکھ کر ان کے لیے دل
سے دعائیں نکلتی ہیں۔





وصال سے چند روز قبل  فیس بک پر میں نے  یہ خبر پڑھی کہ مولانا منیف رضا صاحب کی طبیعت
سخت علیل ہے ان کی شفا یابی کے لیے دعا کریں ،پھر حال دریافت کرنے کے لیے حضرت
علامہ حینف  صاحب قبلہ صدر المدرسین جامعہ
نوریہ رضویہ بریلی شریف سے رابطہ کیا تو حضرت نے بتایا کہ ابھی حالت نازک ہے آپ
جامعۃ المدینہ میں ان کی صحت یابی  کے لیے
دعا کرائیں ،چنانچہ اس کے بعد ۲۷؍ دسمبر ۲۰۱۶ء بروز منگل ۱۲ بجے دن میں یہ  افسوس ناک خبر 
سننے کو ملی کہ مولانا منیف رضا کا دہلی کے ہاسپیٹل میں انتقال ہوگیا ہے،یہ
افسوس ناک خبر سن کر خود کو کسی طرح سنبھالا اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر یہ
سوچتے ہوئے خاموش ہوگیا کہ اللہ کا وعدہ حق ہے 
جب جس کا وقت آئے گا اسے اس  دار
فانی سے کوچ کرنا ہوگا۔





مولانا منیف رضا  سے مجھے دو مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل ہواایک
مرتبہ عرس حافظ ملت کے موقع پرملاقات ہوئی تھی اور دوسری مرتبہ  ۲۰۱۶ء میں رمضان سے قبل  حضرت علامہ حنیف صاحب قبلہ سے ملاقات کی خاطر
اکیڈمی جانا ہوا تو ملاقات ہوئی دوران گفتگو حضرت نے بتایا کہ بعد رمضان فتاوی
رضویہ جدید ترتیب اور مزید رسالوں کے ساتھ منظر عام پر آرہی ہے  تو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی اور معلوم ہوا کہ
فتاوی رضویہ کی ترتیب کمپوزنگ وغیرہ میں زیادہ تر خدمات مولانا منیف رضا کی ہیں
رات میں میرا قیام اکیڈمی میں ہوا تو حضرت نے فتاوی رضویہ کا ایک نسخہ بعض مقامات
پر اعراب وغیرہ لگانے کے لیے مجھے بھی عطا فرمایا رات میں کام کرتے ہوئے مولانا
منیف رضا سے فتاوی رضویہ کی نئی اشاعت پر تبادلہ خیال ہوا اور کافی دیر تک گفتگو
ہوئی کہ فتاوی رضویہ پر کام  کا  یہ سلسلہ کئی سالوں سے چل رہا ہے اب یہ آخری
بار ہے بعد رمضان فتاوی رضویہ جدید ترتیب کے ساتھ منظر عام پر آجائے گی ،اکیڈمی
میں رہ کر میں نے دیکھا  کہ مولانا منیف
رضا اور خود علامہ صاحب بھی کافی رات تک فتاوی رضویہ کی سیٹنگ وغیرہ کا کام کرتے
رہے اور بار بار فرما رہے تھے کہ دعا کریں بعد رمضان یہ کتاب طباعت کے مرحلہ سے
گزر جائے ۔





موصوف نے اکیڈمی  کو بام عروج تک پہنچانے  میں کلیدی کردار ادا کیا     ہے اب تک اکیڈمی سے شائع ہونے والی ۱۰۰ سے زائد کتابوں کے کام میں شریک وسہیم رہے اور بہت سی کتابیں تو ان کے ذریعہ فائنل ہوئیں فتاوی رضویہ کا کام بھی آپ کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا اس لیے جیسے ہی اس کا کام مکمل ہوا پیغام اجل آگیا۔





آج موصوف ہمارے درمیان نہ رہے لیکن ان کی
اکیڈمی   کے لیے بے لوث خدمات اور اسے ترقی
کی راہ پر گامزن کرنا نیز جب بھی ان کتابوں کی اشاعت  ہوگی 
انھیں  اس نیک عمل کا ثواب برابر
ملتا رہے گا ۔





جواب بیٹے کی موت کا سب سے زیادہ غم والدین
کو ہوتا ہے اور بیٹا جب نیک صالح   اور
والدین کو خوش  کرنے والا ہو تو غم اور بڑھ
جاتا ہے لیکن ایسے غم بھرے ماحول میں بھی حضرت علامہ مولانا حنیف رضوی  نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا اور حدیث
پاک ’’الصبر عند صدمۃ الاولی‘‘ پر عمل کرکے حاصل ہونے والے اجر کو ضائع نہیں ہونے
دیا۔





۲۸؍ ربیع الاول ۱۴۳۸ھ کو کثیر تعداد میں  علما ،مشائخ،سادات اور طالبان علوم نبویہ نے ان
کے نماز جنازہ میں شرکت کی اور امام احمد رضا اکیڈمی کے قریب قبرستان کے پاس ایک
پلاٹ میں مغرب سے قبل ہزاروں لاکھوں نے نم ناک آنکھوں سے مرحوم کو سپرد خاک کیا۔





ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے         





      حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے





اللہ تعالی کی بارگاہ
میں دعا ہے کہ مرحوم کے جملہ اہل خانہ کو غریق رحمت فرمائے ،تمام گھر والوں
کو  صبر جمیل عطا فرمائے اور حضرت علامہ
صاحب قبلہ کو صحت وتوانائی طاقت وقوت عطا فرمائے اور مولانا موصوف کا نعم البدل
عطا فرمائے اور اکیڈمی کو مزید ترقیاں عطا فرمائے ۔





از:محمد گل ریز رضا مصباحی ،بریلی شریف یوپی ،      





                  خادم التدیس جامعۃ المدینہ فیضان عطار ناگ پور ،مہاراشٹر


Post a Comment

0 Comments