اس جہان میں سب سے عظیم ترین واقعہ ولادتِ مصطفیٰ جانِ
رحمت ﷺ ہے کیونکہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ لَوْ لَا کَ لَمَا خَلَقْتُ الدُّ
نْیَا‘‘ائے
محبوب ﷺ! اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو کائنات کو پیدا نہ کرتا (مواہب اللدنیہ
،سرور القلوب)نبی پاک ﷺ کی ولادت مبارکہ کی آمد پر خوشیاں منانامیلاد پاک منعقد کرنایہ ایک ایسا
نہایت حسین عمل ہے جس کے انعقاد پر زمانہ
دراز سے اسلاف کرام کے افعال شاہد ہیں ،صحابہ کرام اولیاے کاملین
برابر اس کا انعقاد کرتے رہے ہیں لیکن موجودہ دور میں بعض کم علم اس عظیم ترین فعل کاانکارکرتے ہیں اور طرح طرح کیٖغلط باتوں سے
امت مسلمہ میں انتشار ڈالتے ہیں نہ خود محفل میلاد کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے
ہیں ،
ہم اپنی اس مختصر سی تحریر میں اسلاف کرام
کے عمل سے ثابت کریں گے کہ میلادِ مصطفیٰ ﷺ منانا سنّت رسول ،سنت صحابہ اور سنّت
اسلاف بھی ہےمیلاد مصطفی ﷺ
منعقد کرنا نہ صرف جائز بلکہ کار ثواب اور بہت وفضائل وبرکات کا حامل ہے۔
میلاد کی تعریف
سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ
میلاد کا مطلب کیا ہے؟ولادت کے واقعات بیان کرنا میلاد کہلاتا ہے اورا ﷲ تبارک
وتعالیٰ نے اپنے مقدس کلام قرآن عظیم میں انبیاء کرام کی ولادت کے واقعات کو جا
بجا بڑی شرح وبست کے ساتھ بیان فرمایا ہے جو اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔موجودہ دور
میں میلاد شریف کی حیثیت یہ ہے کہ لوگ جمع ہوتے ہیں، تلاوت قرآن ،ذکر اذکار ،نعتِ
پاک ،ولادتِ مبارکہ کا تذکرہ، سلام مع قیام،فاتحہ خوانی،جلوس ،کھانے وغیرہ کا
اہتمام،تعظیمِ رسالت مآبﷺ کی نسبت کرتے ہیں ۔
آپ ﷺ نےاپنامیلاد خود منایا:
(۱)حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کہ رسول اﷲ ﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے
بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اسی دن میری ولادت ہوئی اسی روز میری
بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔(مسلم شریف ج:1)
حضور ﷺ نے خودصحابہ کرام کو اپنے
میلادپر شکر کی ترغیب دی ۔لوگ سال میں ایک مرتبہ میلاد منانے کی مخالفت کررہے ہیں
اﷲ کے حبیب ﷺ ہر ہفتہ اپنی میلاد کا دن مناتے تھے۔
حضورﷺپر اپنےمیلاد کے موقع پر بکرے ذبح کیے۔
(۲)خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں میرے نزدیک محفلِ
میلاد کی اصل احادیث میں آپ ﷺ کا یہ عمل ہے کہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں اپنی ولادتِ طیبہ
کے موقع پر جانور ذبح فرماتے اور صحابہ کی ضیافت کرتے ۔(الحاوی للفتاویٰ)
صحابہ کرام اور میلاد النَّبیﷺ
صحابہ کرام بھی آپ ﷺ کا میلاد پاک منایا کرتے اور آپ ﷺ کی ولادت کے موقع پر خوشیوں کا اظہار کیا کرتے تھے جب ہم صحابہ کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی آقا ﷺ کا میلاد
مناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
(۱)۔حضرت سیدنا عبد اﷲ ابن عباس رضی
اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک روز میں اپنے اہل وعیال کے سامنے ولادت کے واقعات بیان
کر رہاتھا کہ اچانک حضور سیّدِ عالم ﷺ تشریف لے آئے اور میلاد پڑھتے دیکھ کر فرمایا
تم پر شفاعت حلال ہو گئی ۔(تنویر فی مولد البشیر،الدر المنظم)
ائے میلاد منانے والے عاشقانِ رسول جھوم جاؤ۔
صحا بیٔ رسول عبداﷲ ابن عباس میلاد منارہے ہیں اور میلاد کے صدقے آقا ﷺ کی شفاعت
کا مژدہ آقا ﷺ کی زبانِ پاک سے سن رہے ہیں کیایہ ثابت نہیں ہوتا کہ میلاد منانے
والوں کو شفیع المذنبین شفاعت کی خیرات عطا فر مارہے ہیں
(۲)۔حضرت عامر رضی اﷲ عنہ اپنے گھر
والوں کو میلادِ رسول ﷺ سنا رہے تھے کہ آقا ﷺ تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں بے شک
اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے ہیں اور سب فرشتے تمہارے لئے
بخشش کی دعا مانگ رہے ہیں اور جو شخص بھی تمہارے جیسا کام (ذکرمیلاد مبارک)کرے گا
اسے تمہارے جیسا ثواب ملے گا۔(تنویر فی مولد البشیر، الد ر المنظم)
اسلاف کرام اور میلاد مصطفی ﷺ ۔
(۱)۔شاہ ولی صاحب محدث دہلوی ’’فیوض الحرمین‘‘میں تحریر فرماتے ہیں
:حاصل یہ کہ میں اُس مجلس میں کہ مولدِ
اقدس میں بروز ولادت شریف مکۂ معظّمہ میں منعقد تھی حاضر تھا،لوگ درود پڑھتے اور
حضور اقدس ﷺ کا ذکرِ خیر کر رہے تھے ناگاہ کچھ انوار دیکھے کہ دفعۃ بُلند ہوئے
،میں نہیں کہتا کہ میں نے انہیں بدن کی آنکھ سے دیکھا،نہ یہ کیوں کہ فقط روح کی
بصر سے دیکھا ،خدا کو معلوم ہے کہ کیا
کیفیت تھی اس کی،اور اُس کے درمیان میں نے ان انوار میں تأمل کیا تو وہ
انوار اُن فرشتوں کی طرف سے پائے جو ایسی مجالس مشاہد پر مؤکل ہیں ،اورانوارِ
ملائکہ انوارِ رحمتِ الہی سے ملے ہوئے دیکھے ۔(فیوض الحرمین مترجم،ص:115)۔
(۲)۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے
والد شاہ عبد الرحیم صاحب سے نقل کرتے ہیں :میں ایّام مَولِد شریف میں نبی ﷺ کی
نیاز کا کھانا کیا کرتا تھا ،ایک سال بُھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ آیا
،میں نے لوگوں پر وہی تقسیم کردئے ،حضور اقدس ﷺ کی زیارت سے مشرّف ہوا کہ وہ چنے
حضور کے سامنے رکھے ہوئے ہیں ،اور حضور
شادو مسرور ہیں ،ﷺ ۔’’الدر المتین ‘‘الحدیث الثانی والعشرون،ص:61)۔
(۳)۔علامہ ابن ظفر ’’درّ منتظم‘‘
میں لکھتے ہیں : یعنی میلادِ مبارک کی شادی میں محبانِ رسول ﷺ نے ولیمے کیے،از
انجملہ قاہرہ کے بڑے ولیموں سے وہ ولیمہ ہے جو ہمارے استاذ ابو عبد اللہ محمد بن
نعمان کے استاذ شیخ ابو الحسن بن قفل قدّس سرّہ نے کیا،اور اُن سے پہلے جمال الدین
عجمی ہمدانی نے کیا ،اور یوسف حجاز نے مصر میں بقدر اپنی وسعت کے ترتیب دیا اور
رسولاللہ ﷺ نے خواب میں انہیں اس عملِ مبارک کی ترغیب وتحریض فرمائی ۔(’’سبل الہدی
والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ‘‘ج:/1ص363)۔
(۳)۔ملا علی قاری ۔رحمۃ اللہ علیہ
۔اپنی کتاب ’’مورد الروی فی مولد النبی‘‘میں حضرت ابو الخیر شمس الدین بن الجزری
رحمۃ اللہ کی ایک تحریر نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے: یعنی حضرت ابن جزری ۔رحمۃ
اللہ علیہ ۔نے فرمایا کہ ایک بار ۔ 785 ھ 1383ءمیں میلاد شریف کے موقع پر سلاطین
مصر کے تخت گاہ ،قلعہ میں ملِک طاہر یرقوق کے پاس میرا جانا ہوا ،میں نے وہاں مسرت
بخش چیزیں دیکھیں اور میرا اندازہ ہے کہ محفل میں موجود قاریوں ،مقروں اور نعت
خوانوں وغیرہ کو خلعت دینے ،کھلانے پلانے اور خوشبو وروشنی پر اس نے دس ہزار مثقال
سونا خرچ کیا ہوگا اور میں نے شمار کیا تو مجلس میں پچیس حلقے نو آموز قاری بچوں
کے تھے ۔(انوار ساطعہ ص:332)
(۴)۔امام جلال الدین سیوطی رحمۃ
اللہ علیہ نے ’’فتاوی حسن المقصد‘‘ میں لکھا ہے :یعنی میلاد شریف کے عمل کو ایک
عالم منصف بادشاہ نے تقرب الہی حاصل کرنے کے لیے ایجاد کیا جس میں بلا اختلاف علما
اور صالحین حاضر ہواکرتے تھے ۔(سبل الہدی والرشاد ،ج:/1ص:370)۔
(۵)۔مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی نے ایک خط رئیس مرادآباد،علی محمد خان کو رقم
فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے : یعنی سال میں دو مجلسیں فقیر کے گھر
منعقد ہوا کرتی ہیں پہلی کے عاشورہ کے دن
یا اس سے ایک دوروز قبل چار پانچ سو کی تعداد میں بلکہ ہزار سے بھی زیادہ لوگ جمع
ہوتے ہیں اور درود پڑھتے ہیں پھر فقیر کے آنے کے بعد حدیث میں وارد شدہ فضائل
حسنین کا تذکرہ ہوتا ہے اور حدیث کی روشنی میں بیان شہادت بھی ہوتا ہے جو کہ
بزرگوں کا طریقہ ہے اس کے بعد فاتحہ کے لیے جو چیز موجود ہوتی ہے اس پر ختم قرآن
اور پنچ سورتیں پڑھی جاتی ہیں اب اگر یہ چیزیں فقیر کے نزدیک جائز نہ ہوتیں تو
انہیں عمل میں کبھی نہ لایا جاتا رہی بات مجلس میلاد شریف کی تو اس کا حال یہ ہے
کہ بارہ ربیع الاول میں لوگ مذکورہ بالا تعداد میں حاضر ہوتے ہیں اور درود شریف کے
ورد میں مشغول ہوجاتے ہیں پھر فقیر کی آمد ہوتی ہے پہلے تو احادیث کی روشنی میں
کچھ سرکار علیہ السلام کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں اس کے بعد آپ کے ولادت باسعادت
کا تذکرہ ہوتا ہے آپ کے رضاعت کے احوال اور کچھ حلیہ شریف کا بیان ہوتا ہے اور
کچھ وہ واقعات سنائے جاتے ہیں جو آپ
تشریف آوری پر ظہور پذیر ہوئے پھر کھانا یا شیرینی حاضر ہوتا اس پر فاتحہ دی جاتی اور حاضرین مجلس میں
اس کو تقسیم کرتے۔(انوار ساطعہ در بیان مولود فاتحہ ، ص:328)
یہی شاہ عبد العزیز صاحب وہ ہیں کہ
جن کا شہرہ زبان زد خاص وعام ہے اور میلاد شریف کے منکرین بھی سند حدیث کا سلسلہ
ان تک پہنچ جانے کو اپنے لیے باعث افتخار
سمجھتے ہیں ۔
ہم نے اپنے اس مختصر سے بیا ن میں
سنت رسول ، صحابہ و اسلاف کرام کے عمل سے
ثابت کردیا کہ میلا د مصطفی منانانہ صرف جائز بلکہ کار ثواب ہے ،میلاد مصطفے منانے
اور اس کے فیوض وبرکات پر بے شمار دلائل ہیں لیکن
طوالت کے خوف سے بس انہیں دلائل پر اکتفا کرتا ہوں ۔
محمد گل ریز رضا،مصباحی ،مدناپوری
،
بریلی شریف یوپی
Mob:+918057889427
0 Comments