عصر حاضر میں تحریر کی اہمیت


عصر حاضر میں تحریر کی اہمیت





آج پوری دنیا میں تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی
تحریک دعوت اسلامی ،اسلامی پیغام کو عام کررہی ہے،لوگوں کو پابند سنت اور نماز
روزہ کا عادی بنارہی ہے نہ جانے کتنے لوگ روزانہ اپنے برے افعال سے توبہ کر تے ہیں،
جو لوگ پہلے طرح طرح کے جرائم میں ملوث تھے وہ امیر اہل سنت کی نظر کرم سے ایسے
نیک اور صالح انسان بن گئے کہ آج بے شمار لوگوں کو نیکی کی
دعوت دے رہے ہیں اور راہِ راست پر لارہے ہیں۔





خود نہ تھے جو راہ پر اوروں  کے ہادی بن گئے ۔





یوں تو دعوت اسلامی تقریبًا ۱۰۳ شعبہ جات میں کام کر رہی ہے
کہیں مدرسۃ المدینہ ،جامعۃ المدینہ ،فیضان مدینہ قائم کررہی ہے اور لاکھوں طالبان
علومِ نبویہ اپنے سینوں کو علوم سے منور کررہے ہیں ،دعوت اسلامی کے شعبوں میں سے
ایک  شعبہ جامعۃ المدینہ بھی ہے جس میں
درسِ نظامی کی تعلیم ہوتی ہے اور یہ سلسلہ ترقی کی طرف رواں دواں ہے ،بے شمار
طلباے کرام علوم سے مالا مال ہوکر فارغ ہورہے ہیں اور دنیا بھر میں سنتوں کی
دھومیں مچارہے ہیں ۔اب تک ہند میں  تقریبًا
۲۵ جامعات المدینہ دعوت اسلامی کے زیر سایہ ترقی کی طرف رواں دواں ہیں ،اور طلبہ
کو باصلاحیت اساتذۂ کرام شب وروز علومِ اسلامیہ سے آراستہ کر رہے ہیں ۔





ہند میں جب سے جامعۃ المدینہ کا آغاز ہوا ہے اس سال ۲۰۱۷ء
میں جامعۃ المدینہ فیضان عطار تاج پور(ناگ پور)سے دورۂ حدیث شریف کے طلبہ  درسِ نظامی کی تکمیل اور علومِ اسلامیہ سے
آراستہ ہوکر پہلی مرتبہ یہ سعادت حاصل کریں گے اور اس جامعہ کو بھی یہ سعادت ملے
گی کہ اس کی گود سے اللہ ورسول کی باتیں کرنے والے علم وفن کے جبل شامخ طلبہ کی
جماعت تاج زریں حاصل کررہی ہے ۔





آج آپ کو ایک اچھے اور قابل انسان بننے کے لیے تین چیزیں
درکار ہوتی ہیں (۱)تقریر(۲)تدریس(۳)تحریر۔





(۱)۔تقریر۔ایک شخص اگر تقریرو خطابت کا ملکہ حاصل کر لیتا
ہے تو پوری دنیا میں اس کی شہرت ہوجاتی ہے لوگ اُس کے دیوانے ہوجاتے ہیں جس طرف کا
رخ کرتا ہے دیوانہ وار اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔





لیکن اگر گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ چمک طویل
زمانے تک باقی نہیں رہتی ہے اگر درمیانی بیان کرنا آتا ہے تو کچھ سالوں تک لوگ
یاد رکھتے ہیں پھر بھلادیتے ہیں ،اگر بہت اچھے مقرر خطیب ہیں تو لوگ زندگی بھر یاد
رکھتے ہیں ،لیکن بعد وفات بھول جاتے ہیں اور ان کے خطاب کو جب چاہیں موبائل سے
ڈلیٹ کرسکتے ہیں گویا کہ ان کا کارنامہ ایک آن کی طرح ہوتا ہے جو پل بھر میں ختم
ہوسکتا ہے۔





(۲)۔تدریس۔اس کے علاوہ  دوشعبے زیادہ اہم ہیں ان میں  سے  ایک
تدریس کا شعبہ، یہ سلسلہ اتنا پاکیزہ اور قابل تقلید ہے جس میں روزانہ لاکھوں طلبہ
ایک استاد کی زبان فیضِ ترجمان سے قیمتی مدنی پھول حاصل کرتے ہیں ،اور دھیرے دھیرے
وہ ترقی کی طرف گامزن ہوتے ہیں ،جب یہ مقدس جماعت پڑھ کر فارغ ہوتی ہے اور تدریس
کا سلسلہ شروع کرتی ہے اب اس کا فیضان پھیلتا چلا جاتا ہے ،اس استاد نے صرف ایک
مرتبہ ان طلبہ کو علوم سے آراستہ کیا ،لیکن اب اس کے لیے قیامت تک ختم نہ ہونے
والے قیمتی ثواب کا چشمہ جاری ہوگیا،اور قیامت تک اِن طلبہ کے ذریعہ جتنے بھی لوگ
تعلیم حاصل کرکے دین کا کام کریں گے تو ہر پل صدقہ جاریہ کا ثواب عظیم ان کے اعمال
میں جمع ہوتا رہے گا۔





(۳)۔علم وفکر میں گیرائی وگہرائی حاصل کرنے کا تیسرا طریقہ تحریر
ہے ،یہ مذکورہ بالا دونوں میدانوں سے مشکل تر ہے ۔





جیسا کہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ ،حضرت
علامہ مولانا عبد العزیز محدث مرادآبادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سب سے آسان
تقریر کرنا ہے،اس سے مشکل تدریس یعنی پڑھانا ہے،اور سب سے مشکل تحریر یعنی کتب
ورسائل لکھنا ہے ۔





ہمارے جامعۃ المدینہ میں اس تیسرے میدان میں طلبہ کی بیداری
،اور تحریر کے تعلق سے قوت وفکر میں بہت کمی نظر آتی ہے ،یہ تیسرا میدان جتنا
مشکل ہے اتنا ہی قیمتی اور اہم بھی ہے ،جہاں ایک مدرس اچھی تدریس کے ذریعہ کامیاب
ہوتا ہے وہیں اس کی تحریریں ،کتابیں ،مقالے ،پندو نصائح پر مشتمل انمول مدنی پھول
مردہ دلوں میں ایک نئی تازگی ،نیا جوش ،نئی فکر ،نیا ولولہ  پیدا کرتی ہیں اورایسا انسان جو تدریس کے ساتھ
اگر کچھ تحریری مشغلہ جاری رکھے تو زیادہ کامیاب ہوتا ہے،گویا کہ بیک وقت دو مختلف
شعبے کے لوگ اس کی صلاحیتوں سے منور ہوتے ہیں،اور اپنی تشنگی مٹاتے ہیں۔پتہ چلا کہ
تحریر کی افادیت بہت زیادہ ہے اور تحریر کا مقام ایسا ہے کہ وقتِ تحریر اس کے
اسلوب ،ادائگی ،الفاظ کی تک بندی ،مقام کے حساب سے الفاظ اور جملوں کا استعمال
،ایک نئی فکر اور مواد سے پُر کوئی کتاب،رسالہ وغیرہ جب معرض وجود میں آتا ہے،جب
اس کی مقبولیت حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس کتاب کو دنیا بھر میں قبول  عام حاصل ہوگیا اب اس قلم کار کے اجرعظیم کا
اندازہ لگائیں اور دیکھیں کہ بیک وقت دنیا بھر میں کوئی نہ کوئی اس کی کتاب کا
مطالعہ کررہا ہے تو اُسے ہر ہر لمحہ بے شمار اجر عظیم حاصل ہورہا ہے حالاں کہ اُس
نے صرف ایک مرتبہ اسے تیار کرنے میں محنت کی ہے لیکن ثواب عظیم کا چشمہ قیامت تک
لیے موجزن ہوگیا جبکہ یہ عمل خلوص نیت سے کیا گیا ہو ۔





آپ اپنے سامنے ماضی قریب کی عبقری شخصیت مجدد اسلام امام
احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی حیاتِ مبارکہ کاایک تصور لائیں
،انہوں نے اپنی قیمتی اور یادگار تصانیف چھوڑیں ،اور ایسی زبردست دلائل سے پُر اور
عظیم اسلامی انسائکلو پیڈیا کی شکل میں ایک اہم امانت قوم کو سپرد کی دنیا بھر میں
ہر لمحہ کوئی نہ کوئی ان کی کتب سے اکتساب فیض کررہا ہے ان کے وصال مبارک کو ۱۰۰
سال ہونے والے ہیں لیکن آج بھی وہ اپنی تصانیف کی بدولت ہمارے درمیان موجود
ہیں  اور اب یہ سلسلہ ان شاء اللہ قیامت تک
جاری رہے گا۔





اپنے دور کی ایک عظیم اور روحانی شخصیت امیر اہل سنت کی
زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ کی تصانیف ۱۰۰ سے متجاوز ہوچکی ہیں
،آج پوری دنیا میں لوگ ہر لمحہ ان کی کسی نہ کسی کتاب سے استفادہ کررہے ہیں ،گویا
کہ ایک قلم کار اگر قوم کو ایک اچھی اور قیمتی کتاب فراہم کرتا ہے تو زندگی میں ہی
اس کے لیے ثواب عظیم کے چشمے جاری ہوجاتے ہیں اور بعد وفات بھی قیامت تک جاری رہیں
گے ۔





خبردار!اپنا
قلم صرف امت مسلمہ کی فلاح وبہبود کے لیے ہی اٹھائیں ،اپنے قلم کو درستگی کی لگام
دیں اور ایک خوب صورت انداز میں قوم کو نئی نئی معلومات سے آگاہ کرتے جائیں ورنہ
اگر لایعنی اور مضر باتیں  قلم سے صادر
ہوئیں اور دنیا میں اس کا چلن ہوگیا  تو
رہتی دنیا تک ثواب عظیم کے بجاے گناہ عظیم کا چشمہ جاری ہوجاے گا۔





آخیر میں اپنے جامعات المدینہ کے تمام طلبہ سے گزارش کی
جاتی  ہے کہ جہاں آپ کے لیے تدریس ضروری
ہے وہیں قلم کی حرکت اور تحریر وتصنیف سے آشنائی بھی ضروری ہے ،تاکہ آج جو اغیار
،بدمذہب اپنے قلم کی بدولت باطل عقائد ہماری قوم میں داخل کررہے ہیں ،اور انھیں
اپنی طرف مائل کررہے ہیں ان کا توڑ ہم قلم سے نکلی ہوئی تحریر کی صورت میں پیش
کرسکیں ۔





اس مضمون میں تحریر کی افادیت پر ابھارنے کا جذبہ دلایا گیا
ہے ،اس سے یہ مفہوم مستفاد نہ کیا جائے کہ مذکورہ بالا دونوں میدان بے فائدہ
ہیں۔مجھے امید ہے کہ طالبان علوم نبویہ اس مقالے سے اپنے اندر ایک نیا جذبہ،نئی
فکر،نیا جوش پیدا کریں گے ،اور تحریری کام کے ذریعہ بھی اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو
اجاگر کریں گے ۔





میں اپنے تمام طلبا اور بالخصوص درجہ اولی کے تمام طلبہ کو
مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس تحریری کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک
اچھے کام کی داغ بیل ڈالی ،اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو انھیں بھی اس عمل خیر
کا ثواب برابر ملتا  رہے گا ۔





اللہ تعالی تمام جامعات
المدینہ ، سنی مدارس اور طالبان علوم نبویہ کو مزید ترقیاں عطا فرمائے ۔





محمد گل ریز رضا مصباحی
،بریلی شریف





خادم التدریس جامعۃ المدینہ
فیضان عطار تاج پور(ناگ پور)۔مہاراشٹر۔





9458201735


Post a Comment

0 Comments