ایک عاجزانہ اور دردمندانہ پیغام تمام سلاسل کےبزرگوں اور علمی روحانی شخصیتوں کے نام

ایک عاجزانہ اور دردمندانہ پیغام تمام سلاسل کےبزرگوں اور علمی 
روحانی شخصیتوں کے نام


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دنیا بھر میں دعوت اسلامی کے جتنے بھی جامعات المدینہ قائم ہیں ان میں ہر ماہ یہ عمل جاری رہتا ہے کہ طالبان علوم نبویہ کے قافلے تین دن کے لیے قریہ قریہ شہر شہر روانہ  ہوتے ہیں  اور لوگوں سے ملاقات کرکے انھیں نیکی کی دعوت دیتے ہیں مسجدوں میں لاتے ہیں نماز،روزہ زکات اور عقائدکے بنیادی مسائل سکھاتے ہیں ۔
اچانک خبر ملی کہ مہاراشٹر میں ناگ پور سے قریب چندر پور ضلع میں دیوبندیوں کا  ۶،۵،۴  فروری ۲۰۱۷ءکو تین روزہ اجتماع ہورہا ہے جہاں پر وہ قرب وجوار کے گاؤں سے بہت سے لوگوں کو اجتماع گاہ لے جائیں گے اور ان کے ایمان وعقیدہ بگاڑنے کی کوشش کریں گے ،ان کی اس کوشش کو ناکام کرنے کے لیے جامعۃ المدینۃ فیضان عطار ناگ پور کے ذمہ داروں نے مشورہ کیا کہ اس مرتبہ سارے طلبہ کو چندر پور لے جاکر ان کے مشن کو ناکام کرنے کی کوشش کی جائے ،چنانچہ جمعہ کی رات میں تقریبًا ۱۵۰ طلبہ واساتذہ سمیت یہ مدنی قافلہ تین بسوں میں سوار ہوا اور جمعہ کی صبح میں یہ نورانی قافلہ چندر پور کی زمین پر پہنچا اور مسجد غریب نواز میں پہنچ کر قرب وجوار کی مساجد میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں پھیل گیا ور نماز جمعہ سے پہلے لوگوں سے ملاقات کرکے نیکی کی دعوت پیش کی،اسی طرح بعد نماز عصر بھی گلی گلی جاکر لوگوں سے ملاقات  کرکے نیکی کی دعوت دی ،۴؍ فروری بعد نماز عصر جب مسجد سے باہر نکلے اور لوگوں کو نیکی کی دعوت پیش کی تو ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس کی گردن میں دیوبندیوں کے اجتماع کا کارڈ تھا   دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس نے چالیس دن کے چلے کا ارادہ کرلیا ہے اور نام بھی لکھا دیا ہے ،اس کا پورا گھر اس ہونے والے اجتماع میں شریک ہے نیز اس کے گھر بہت سارے رشتہ دار دور دراز سے آئے ہیں جو سب تین روزہ دیوبندیوں کے اجتماع میں شرکت کریں گے ،چنانچہ ہم نے ان سب کو جمع کیا اور عقائد کے متعلق بہت ساری باتیں بیان کیں ،اور ان کے گندے عقائد سے بھی آگاہ کیا،اسی دوران معلوم ہوا کہ اس گروہ کے ایک مولانا یہاں موجود ہیں جو لوگوں کے نام لکھ رہے ہیں اور انھیں اجتماع گاہ کی طرف روانہ کررہے ہیں،ہماری تھوڑی دیر کی نصیحت اس پر کیا اثر کرتی جس کے پورے گھر پر اغیار ایک ماہ سے محنت کررہے ہوں،اس طرح وہ پورا گھر ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا،اچانک وہی مولانا  موٹر سائکل پر تیزی سے یہ کہتے ہوئے  گیے اجتماع گاہ کی طرف جلدی چلیں،اس طرح ایک مسلمان ہماری نظروں کے سامنے اپنے پورے گھر کے ساتھ جہنم میں جارہا ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے ،اب اغیار کی ایک مسجد بھی تعمیر ہونے کے قریب ہے پھر نہ جانے  کتنے لوگوں کا ایمان برباد کریں گے۔
آج میں نے اس چیز کا مشاہد کیا ہے تو اسے نم ناک آنکھوں سے آپ تک پہنچا رہا ہوں یہ تو ایک دیکھا ہوا واقعہ ہے ورنہ وہ روزانہ کتنے لوگوں کو اپنے مشن کی دعوت دیتے ہوں گے اور کتنوں کا ایمان برباد کرتے ہوں گے۔
اسےنقل کرنے کے بعد تمام سلاسل ،اشرفی ،رضوی،مداری،برکاتی،نقش بندی،حشمتی، صابری وغیرہ کے تمام سجادگان کی بارگاہ میں بطور عاجزانہ عرض کررہا ہوں کہ ہوش کے کان لیں اور یہ آپسی اختلاف اشرفی کو رضوی سے پیار نہیں،رضوی کو اشرفی سے پیار نہیں،مداری کو رضوی سے پیار نہیں،ثقلینی رضوی اختلاف،خشمتی رضوی اختلاف کو ختم کریں،ہر خانقاہ کے سجادہ نشین اور مرجع عقیدت شخصیات  کی بارگاہ میں  عرض ہے کہ آپ اپنے مریدوں کو ان سارے اختلافی مسائل سے منع کیوں نہیں کرتے  مذکورہ سلسلے بعد میں ہیں پہلے ہم سب مسلمان ہیں،اگر کسی سے کچھ اختلاف ہے تو اسٹیج پر رد کرنے  سے حل نہیں نکلے گا جس سے اختلاف ہے اس سے بیٹھ کر بالمشافہ بات کریں اور دریافت کریں کہ آپ کی فلاں بات سے یہ مفہوم نکلتا ہے آپ اس کی وضاحت فرمادیں تو مجھے امید ہے کہ اس طرح کرنے سے سارے مسائل ختم ہوجائیں گے اور سنیت کی طاقت  مضبوط ہوجائے گی،صرف غائبانہ ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنے سے معاملہ  ختم نہیں ہوتا  بلکہ اور بڑھ جاتا ہے۔
جس کی تازہ مثال عبید اللہ خان اعظمی اور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی صاحب کا اختلاف ہے،حشمتیوں اور مولانا تطہیر کا اختلاف ہے،جب محقق مسائل مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ نے ٹرین کے مسئلہ پر ایک جدید تحقیق پیش کی تو کسی نے بھی ان سے بالمشافہ بات چیت نہیں کی صرف رد میں کتابیں لکھتے رہے،بعض ایسے لوگوں کی کتابیں بھی منظر عام پر آئیں جنھیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے نہ انھیں فقہ سے واسطہ ہے اور نہ کبھی اصول افتاء وغیرہ سیکھے صرف سستی شہرت حاصل کرکے نام کمالیا اور مصنفین کی فہرست میں اپنا نام درج کرالیا،اس مسئلہ پر اتنا واویلا مچایا جبکہ یہ مسئلہ فرعی  تھا اور فرعی مسائل میں کوئی اگر اپنی تحقیق پیش کرتا ہے  تو اسے گمراہ بدمذہب ،یا صلح کلی نہیں کہ سکتے ،جبکہ غالبًا ۲۰۰۵،یا  ۲۰۰۶ء  میں ٹرین کا مسئلہ جامعۃ الرضا بریلی شریف کے سیمینار میں بھی زیر بحث تھا جب یہ مسئلہ اجماعی تھا تو کیوں اس پر سیمینار کیا گیا ناقدین کی زبان وہاں کیوں خاموش رہ گئی۔
احسان اللہ صفوی ابو میاں کے عقائد ونظریات آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں ان کی باتوں کو لے کر ان پر بھی فتوی لگایا گیا،ان کے رد میں کتابیں لکھ کر اپنی انرجی ضائع کی اور قیمتی وقت بھی،بعض لوگوں کو مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنے میں کتنا سکون ملتا ہے کسی کافر کو مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کرتے  مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنے کی تدبیریں تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس طرح کی حرکتیں کرتے وقت ان کے ذہن سے یہ حدیث پاک کہاں غائب ہوجاتی ہے’’اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان کو کافر کہے اور وہ کافر نہیں ہے تو کفر کہنے پر لوٹ آئے گا‘‘۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر احسان اللہ صفوی ابو میاں کے پاس جاکر ملاقات کیا جاتی اور انھیں ان کی غلط باتوں پر آگاہ کرکے توبہ کے لیے آمادہ کیا جاتا تو  وہ ضرور اپنی قابل گرفت باتوں سے رجوع کرلیتے ،لیکن ایسے کرنے سے ان کی واہ واہ نہیں ہوتی مصنفین کی صف میں کھڑا ہونے کا موقع نہ ملتا جسے سستی شہرت مطلوب ہو تو وہ یہ نیک قدم کیوں اٹھائے گا ۔
فرعی مسائل میں اختلاف کی مثالیںآپ کو بخوبی یاد ہوں گی،میں آپ کے سامنے چند مثالیں  پیش کرتا ہوں جن میں اصاغر کا اکابر سے اختلاف ہے پھر بھی الفت ومحبت باقی ہے ۔حضرت مفتی مطیع الرحمن مضطررضوی پورنوی سالہا سال تک حضرت مفتی اعظم کی خدمت میں رہ کر علمی وفقہی استفادہ واکتساب فیض  کرتے رہے وہ  فرماتے ہیں :سیدی ومرشدی  حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے لاوڈ اسپیکر کی آواز پر نماز کے عدم جواز کا اور اسی طرح حج فرض کے لیے فوٹو کھچوانے کے عدم جواز کا فتوی صادر فرمایا جبکہ اہل سنت کے دوجلیل القدر علما میں سے حضرت مفتی سید محمد افضل حسین مونگری صدرالمدرسین دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف نے لاوڈ اسپیکر کی آواز پر نماز کے جواز کا اور حضرت مفتی محمد اجمل شاہ نعیمی سنبھلی نے حج کے لیے فوٹو کے جواز کا فتوی دیا ۔
اس فرعی اختلاف کے باوجود ان حضرات کے باہمی تعلقات اخلاص ومحبت حسب سابق برقرار رہے ،کوئی ادنی روایت بھی میرے علم میں نہیں کہ ان حضرات میں  سےکسی نے بھی کسی شخصیت یا اس کے علم وفضل پر کوئی انگشت نمائی کی ہو ،حضرت مفتی سید محمد افضل حسین مونگری ،حضور مفتئ اعظم کے مرید وخلیفہ تھے  ،وہ جب بھی حضور مفتئ اعظم سے ملتے ایک مرید وعقیدت مند ہی کی حیثیت سے ملتے دست بوسی کرتے اور نہایت عقیدت واحترام سے پیش آتے تھے ،اسی طرح حضرت مفتی محمد اجمل شاہ نعیمی  سنبھلی جب بھی حضور مفتئ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوتے دست بوسی کرتے اور اپنا بزرگ سمجھ کر اپنی سابقہ عقیدت واحترام کا مظاہرہ کرتے ،حضور مفتئ اعظم بھی ان حضرات کو ہمیشہ اپنی شفقت و لطف معرفت سے نوازتے رہے ۔(فقیر محمد مطیع الرحمن رضوی ،مورخہ ۱۵،ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ،مطابق ۲۱؍دسمبر ۲۰۱۳ءبعد نماز)۔
ایک دوسری مثال ملاحظہ فرمائیں کہ اصاغر نے اکابر سے اختلاف کیا ہے  ،مجلس شرعی مبارکپور ضلع اعظم گڑھ یوپی کے دوسرے فقہی سیمنار منعقدہ ،۱۹؍تا ۲۲؍رجب ۱۴۱۵ھ  مطابق ۲۳؍تا ؍۲۶ دسمبر  ۱۹۹۴ ء بہ مقام الجامعۃ الاشرفیہ میں حق راے دہی یعنی الیکشن میں ووٹ دینے کے سلسلے میں شناختی کارڈ مع فوٹو کے مسئلہ  پر کافی بحث ووتمحیص  کے بعد ضرورت شرعیہ کی بنیاد پرمسلمانوں کے لیے شناختی کارڈمع فوٹو کے جواز کا فیصلہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ۔
’’عند الضرورت ،ضرورت ملجئہ یا حاجت شدیدہ متحقق ہوگی لہذا شناختی کارڈ کے لیے تصویر کھینچانے کی اجازت ہوگی الی اخرہ‘‘اس فیصلہ پر تصدیقی دستخط کرنے والے چند علماے وفقہاے اہل سنت کے نام یہ ہیں ۔(۱)قاضی القضاۃ فی الھندحضور تاج الشریعہ اختر رضا قادری ازہری(۲)علامہ شریف الحق  صاحب قبلہ امجدی رحمۃ اللہ علیہ  (۳)  رئیس القلم علامہ ارشد القادری صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ   (۴)  حضور محدث کبیر علامہ  ضیاء المصطفی صاحب قبلہ   (۵)  فقیہ ملت مفتی جلال الدین صاحب امجدی رحمۃ اللہ علیہ  (۶) امام علم وفن خواجہ مظفر حسین رحمۃ اللہ علیہ  (۷)  علامہ شبیر حسن رضوی ۔
اس فیصلہ کی اطلاع پاکر علم وعقل اور فکر وفہم سے عاری بعض مولویوں اور کچھ ناواقف عوام نے چہ مہ گوئی ونکتہ چینی شروع کی تو جانشین مفتئ اعظم حضرت مفتی اختر رضا قادری رضوی ازہری بریلوی  دام مدظلہ العالی  نے یہ ہدایت نامہ جاری کرکے بحث کا دروازہ بند کردیا۔
’’ایسے نیے مسائل جو فی الواقع فرعیہ علیہ ہوں اوران سے متعلق کوئی صریح جزئیہ نہ مل سکے تو ہرعالم نہیں بلکہ ماہر وتجربہ کار مفتی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس مفتی پر لازم ہے کہ اصول شرعی کے پیش نظر اس کا حکم صادر فرماے اصول شرعی سے ہٹ کر فتوی دینا ہرگز جائز نہیں ،اگر اس نے جسے دلیل قرار دیا اور پھر واضح ہوگیا کہ یہ دلیل شرعی نہیں تو فوراً اس پر رجوع لازم ہے اور حق کا اعلان کرنا چاہیے ،کسی حرام شئی  کے مباح ہونے کا فتوی    ا س وقت دیا جاے گا  جب کہ وہاں یہ ضابطہ صادق آئے’’الضرورات تبیح المحضورات‘‘اور مفتی کو تیقُن ہوجاے کہ اس  ضرورت شرعیہ  کے معارض کوئی دوسرا قاعدہ شرعیہ نہیں ہے ،(حیات ،تاج الشریعہ ،ص:۹۴،مولف مولانا شہا ب الدین رضوی بریلوی )۔
ایک مثال اور ملاحظہ فرمائیں کہ بجلی کی روشنی اور اس کے پنکھے کے سلسلہ میں مستفتی کے بیان کردہ نقصانات وخطرات کے پیش نظر ،فقیہ بے مثال مجدد اسلام  امام احمد رضا خان فاضل بریلوی  نے فتوی دیا کہ مال وقف یا کسی بھی مال سے صِرف مسجد  ہی نہیں بلکہ گھروں میں بھی اس بجلی کی روشنی اور اس کے پنکھے کا استعمال ہو وہاں بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔
اور آج وہ نقصانات و خطرات معدوم یا شاذ ہیں اس لیے بجلی کی روشنی اور اس کے پنکھے کا استعمال بلا کراہت جائز ہے ،یعنی جب اسباب وحالات  کی وجہ سے عدم جواز کا حکم تھا وہ اسباب وحالات  بدل گیے اس لیے اب جواز بلا کراہت کا حکم ہے ۔
جو مولوی صاحبان اس کے قائل ہیں اور زور وشور کے ساتھ اس کی تشہیر کرتے رہتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں فتاوی رضویہ کے بیان کردہ کسی بھی  فتوی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی خواہ جو بھی ضرورت وحاجت وتبدیلی علت ہو ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنی مسجدوں ،اپنی خانقاہوں ،اپنے مدرسوں ،اپنے کارخانوں اوراپنے گھروں کا بجلی کنکشن اپنے موقف  کوعملی شکل دینے کے لیے پہلی فرصت میں کٹوائیں ۔ شاید ایسے ہی موقع پر کسی شاعر نے کہا تھا ۔
             مگس کو باغ میں جانے نہ دینا                           کہ ناحق خون پروانوں کا ہوگا
ایک بات عرض  کرکے میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں حضرت مفتی مطیع الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت مفتئ اعظم کا حال یہ تھا کہ اس زمانے کا کہیں کوئی پوسٹر مل جائے تو آپ دیکھیں گے کہ حضور مفتئ اعظم ہند کے مدرسہ مظہر اسلام کا جب رمضان کا پوسٹر نکلتا تھا تو اس پوسٹر میں نیچے بوکس بنا ہوا  تھا جامعہ اشرفیہ کے لیے،  جامعہ اشرفیہ کے لیے حضرت کی اپیل ہوتی تھی آج بھی پرانے زمانے کا پوسٹر مل جائے تو دیکھ سکتے ہیں ،مظہر اسلام کے لیے تو حضرت وہ لکھواتے تھے اور وہ مہتمم کی طرف سےہوتا تھا  اور یہ حضرت کی طرف سے اپیل تھی جامعہ اشرفیہ کے لیے
میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت کی طرف سے اپیل ہی نہیں دعابھی تھی اور مستقبل بینی بھی تھی اسی کا ثمرہ آج ہمارے سامنے ہے ۔
ایک طرف مفتئ اعظم کا حال یہ ہے کہ اپنے مدرسہ کے پوسٹر میں خاص طور پر یہ لکھوارہے ہیں کہ اشرفیہ کو چندہ دو اور اس کی مدد کرو وہ دین وسنیت کاکام کر رہا ہے اور آج کے مولویوں کا حال یہ ہے کہ وہ جگہ جگہ تقریروں میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اشرفیہ کو چندہ دینا حرام ہے ،یہ فتوی صادر کرنے والے لوگ کون ہیں ان کو فتوی دینے کی اجازت کہاں سے حاصل ہے آج تک ٹرین کا مسئلہ جو  صرف علما ے کرام کے درمیان ہی زیر بحث تھا ان پیشہ ور مقرروں نے اسے عوام کے درمیان بھی خوب مشہور کر دیا ہے ،اشرفیہ تو وہ مدرسہ ہے جس کی فلاح وبہبود کے لیے حضرت صدر الشریعہ نے دعا کی ہے،جب حضرت صدر الشریعہ زیارت حرمین طیبین کے لیے روانہ ہوے تو حضور حافظ ملت نے عرض کیا دوران حج اشرفیہ کی ترقی کے لیے دعا کریں مجھے شرپسند عناصر کی طرف سے خطرہ محسوس ہورہا ہےتو حضرت صدر الشریعہ نے فرمایا’’اشرفیہ پھلے گا  پھولے گا اور جو اس کی برائی اور تباہی کا ارادہ کرے گا  وہ ذلیل وخوار ہوگا وہ ذلیل وخوار ہوگا وہ ذلیل وخوار ہوگا‘‘جس ادارے کی بنیاد رکھنے والے اعلی ٰ حضرت ﷜ کے فرزند ارجمند حضور مفتئ اعظم ہوں وہ مدرسہ  کبھی حاسدوں کے حسد کا شکار نہ ہوگا اورالحمد للہ آج تک نہ جانے کتنے زلزلے اور آندھیاں آئیں لیکن وہ آج بھی جبل مستحکم کی طرح دین وسنیت کی دعوت کو عام کر رہا ہے اور حافظ ملت کا یہ مشن عام کر رہا ہے کہ’’ ہر مخالفت کا جواب کام ہے ‘‘۔
اشرفیہ کو صلح کلی کا  گڑھ ثابت کرنے کے لیے لایعنی  باتوں پرمشتمل کتابیں  لکھ کر یا تو شہرت حاصل کرلی یادین کا بے لوث کام کرنے کے بدلہ کہیں سے اجازت وخلافت حاصل کرلی،جبکہ یہ دین کا کام   نہیں تھا۔
ایک دو مچھروں کے کاٹنے سے ہاتھی کا کچھ نہیں ہوتا ہے وہ لوگ جنھوں نے اشرفیہ کے رد میں کتابیں لکھ کر جو شہرت حاصل کی ہے اگر فرزندان اشرفیہ جواب میں کتابیں لکھنے پر کمر بستہ ہوجاتے تو انہیں کہیں منھ چھپانے کو جگہ نہیں ملتی لیکن مصباحی برادران نے حافظ ملت کے اس فرمان’’ہر مخالفت کا جواب کام ہے‘‘پر عمل کرتے ہوئے اس فضول کام کو ترک کردیا اور اپناتعمیری وتصنیفی کام جاری رکھا۔
اپنے اکابر اور بزرگوں کے خلاف کتابیں لکھنے کا نقصان اس وقت نظر آئے گا جب دیوبندی اور وہابی ہمارے بزرگوں کے خلاف لکھی ہوئی  ہماری کتابوں سے دلیل پیش کیا کریں گے یہ دیکھو سنیوں یا بریلوں کے فلاں مولانا صاحب ہیں ان کے کرتوت یہ ہیں آج تک ہم نے اغیار کو ہر میدان میں شکست دی ہے کبھی ان کے ناپاک کاموں اور کبھی ان کی گندی عبارتوں سے انھیں باہر کا راستہ دکھایا ہے لیکن ہمیں بھی اس سے یہ درس لینا چاہیے کہ آج تک ہم نے ان کے بزرگوں کی باطنی چیزوں کو سامنے لاکر انھیں ذلیل ورسوا کیا ہے تو کیا ہم اپنے مخالف سے کسی اچھائی کی امید کرسکتے ہیں جس طرح   آج ہم ان کے خلاف مواد جمع کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح کے کام میں لگے ہوں گے کہ ان بریلویوں کے خلاف کچھ ایسا مواد ملے جس سے انھیں ذلیل ورسوا کیا جائے  اور تحریر ایسی چیز ہے جو بہت دنوں تک باقی رہتی ہے  لہذا میری تمام قلم کاروں کی بارگاہ میں گزارش ہے کہ ان سب باتوں کو چھوڑ کر تعمیری  ذہن بنائیں  کہیں ایسا نہ ہو ہم اس شعر کے مصداق بن جائیں۔           دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے                                                    اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آج کے حالات کا جائزہ لیں تو ایک سلسلہ کا شخص دوسرے سلسلہ کے شخص سے خندہ پیشانی سے ملنے کو تیار نہیں ہے،ایک ایسا خط امیتاز کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے ایک اجنبی شخص کے درمیان کھینچا جاتا ہے۔
مقبول اور شہرت یافتہ شخصیات کی بارگاہ میں عرض ہے کہ آپ کی باتوں میں وہ اثر ہوتا ہے جو مریدوں میں روحانی غذا کی طرح اثر کرتا ہے تو آپ اپنے مریدوں سے مجمع عام میں یہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں ،کیوں اپنے ذاتی اختلاف سے پوری قوم مسلم کو تباہی میں ڈالتے ہیں کب تک پیری مریدی کے نام پر بھولے بھالے عوام کی مال ودولت حاصل کریں گے ،کبھی آپ کا قیام  کسی غریب مرید کے گھر ہوتا ہے ؟کبھی لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لیے تنہا جاتے ہیں؟کبھی تبلیغ کی خاطر آپ نے تکلیفیں برداشت کی ہیں؟
جو لوگ دعوت اسلامی کا اس قدر رد کررہے ہیں ان کی بار گاہ میں عرض ہےکہ وہ بھی کوئی نعم البدل پیش کریں  آڈیو چینل ایک زمانے سے چالو ہے لیکن وہ بھی پورے طور پر ایک ملک میں نہ پھیل سکا،ایک طرف پیشہ ور مقرر ببانگ دہل اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے یہ اعلان کرتے ہیں ۔ٹی وی دیکھنا حرام ہے جب خود ان کا موبا ئل   دیکھیں تو اس میں بیشمار ویڈیو ملتی ہیں بعض کہ موبا ئل میں تو ایسی بھی ویڈیو ملتی ہیں جن کا دیکھنا کو ئی بھی جا ئز نہیں کہتا ہےتو ایسی  وید یو دیکھتے وقت  ان کا نفس کہا مر جاتا ہے اپنی ذات کی با ت آتی ہے تو سب کچھ بھو ل جا تے ہیں تا مرو ن النا س با لبر و تنسون انفسکم آج کے زما نے میں ۹۹فیصد لوگ ایسے  ملیں  گے جن کے پاس مو با ئل ہو گا اور اس میں ویڈیو یا تصویر یں ملیں گی جب قوم کی حالت یہا ں تک پہنچ گئی ہے تو مد نی چینل کے  جواز کا فتوی کیوں نہیں دیا جا تا جب کہ  وہ خا لص اسلا می چینل ہے اگر یہ درست نہیں تو پھر مدا رس یا مزا رات  پر سی سی ٹی وی کیمرے  کیو ں نصب کیے جاتے ہیں تو جوا ب ملے گا بطو رِ حفا ظت  وضرورت لگا ئے گیے ہے تو جس طرح یہ عذر الضرورۃ تبیح الحذورات یہا ں پیش کیا  جا تا ہے یہی اسلا می چینل کے لیے کیوں نہیں دیتے  جب کہ وہاں محذور نہیں ہے صرف ہر وقت یا د خدا یاد مصطفی کے ترا نے گا ئے جاتے ہیں ۔
دعوت اسلامی ایک ایسی عالمی تحریک ہے جو آج تقریبًا   ۲۰۰ ممالک   میں سر گرم  عمل ہے سو سے زیادہ شعبوں میں کا م کررہی ہے کتنے لوگ اس کی بدولت راہ راست پر آگیے اور سنتوں کی دھومیں مچانے لگے ،آج اہل سنت کی سب سے بڑی  تحریک دعوت اسلامی باطل قوتوں کو شکست دے کر آگے بڑھ رہی ہے تو بعض لوگ اس کو بھی نہیں بخش رہے ہیں آئے دن اسے اپنے سخت کلمات سے نوازتے رہتے ہیں نہ خود کچھ کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے ،آج اغیار اپنے گندے عقائد کو چینل کے  ذریعہ دنیا بھر میں عام کر رہے ہیں تو ان کے رد میں خالص اسلامی چینل چالو کیا گیا آج لاکھوں لوگ گھر بیٹھے اپنا دین اور زندگی کے بے شمار مسائل چینل کے ذریعہ سیکھ رہے ہیں ،ہونا تو چاہیے تھا کہ دعوت اسلامی کو مبارک باد پیش کی جاتی اور اس کے کام کو سراہا جاتا  کہ جو کام ہم نہیں کرسکے یہ کررہی ہے ،لیکن اس کے برعکس جگہ جگہ اسٹیجوں پر اس کا رد کیا گیا،اور لوگوں کو اس سے دور رہنے کی تاکید کی گئی،یہ سنی جماعت نہیں ہے ،بلا مبالغہ بیان کررہا ہوں کہ جتنا کام آج دعوت اسلامی اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ پر کر رہی ہے کوئی بڑا سے بڑا رضوی بھی نہیں کررہا ہے،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ عنہ کاحاشیہ جد الممتار علی رد المحتار  دعوت اسلامی نے خوب صورت انداز میں شائع کیا ،صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کی بہار شریعت  ایک زمانے سے اسی طرح سے چھپ رہی تھی اور اسی کے ذریعہ  تاجران کتب اپنا گزارا کررہے تھے،دعوت اسلامی نے بہار شریعت پر ایک ایسا نمایا کام ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا  آج دعوت اسلامی کی مطبوعہ بہار شریعت مخالفین  وموافقین ہر ایک کے دار الافتاء کی زینت بنی ہوئی ہے،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کی فتاوی رضویہ  لیپ ٹاپ  پراستعمال کرنے کے لیے دعوت اسلامی نے سوفٹ وئیر کی شکل  میں ایک خوب صورت انداز میں پیش کی ہے جس سے بہت سارے افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں،آج سے دوچار سا ل پہلے کی بات کریں    تو اعلی حضرت رضی اللہ تعالی  عنہ کے جانکاروں کی تعداد میں دعوت اسلامی کی بدولت اضافہ ہوا ہے،یہ تو چار مثالیں مثالیں  میں نے ذکر کی ہیں ورنہ دعوت اسلامی آئے دن اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی کتب کو جدید طرز اور نیے انداز  میں لوگوں کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
۵؍ فروری کو ہمیں معلوم ہوا  وہ قرب و جواز کے گا ؤں سے لو گوں کواجتماع گا ہ    لےجا رہے ہیں اور با ہر سے بھی گا ڑیا ں اجتما ع گا ہ کی طرف جا رہی ہیں اور مجمع ایک لا کھ تک پہنچ گیا ہے چنا نچہ مو ٹر سا ئکل سے سوا ر ہو کر ہم کچھ گاؤں میں گیے اور لو گو ں سے ملا قات کی لو گو ں نے بتا یا وہ لوگ آئے تھے اور دعوت دے کر گیے  ہیں ہم اجتماع میں جانے کا ارادہ کر رہے تھے، جب ہم نے انہیں بنیا دی عقا ئد سے آگا ہ کیا اور ان کے گندے عقائد بتائے تو وہ اجتما ع میں جا نے سے رک گیے اسی طر ح چندر پور سے ۲۰ کلو میٹر دو ر  ایک ایسے گا ؤں میں پہنچے جہا ں مسلما نوں کا صرف ایک گھر تھا پتہ چلا اس گھر کے افرا دکو بلا نے کے لیے بھی وہ  لو گ آئے تھے اس سب با توں کو لکھ کر اس بات سے آگا ہ کر نا ہے مسلما نوں جا گ جا ؤ ورنہ یہ ہما ری قوم جب گمراہ ہو جا ے گی تو  بہت پچھتا نہ پڑے گا خا ص کر علما ئے اہل سنت اور با اثر شخصیات اس طرف خوب دھیا ن دیں ورنہ قیا مت  کہ دن ہمیں اس با رے میں جوا ب دینا پڑے گا ۔
تمام مدارس اسلامیہ کے اساتذہ وناظمین کی بارگاہ میں بھی عرض ہے کہ آپ بھی دعوت اسلامی کی اس روش کو اختیار کریں اور ہرماہ تین دن کے لیے طلبہ کو قرب وجوار کی بستی میں بھیجا کریں تاکہ آج  جو مسلم نادان اغیار کی طرف مائل ہورہے ہیں ہم ان کے دین وایمان کو بچا سکیں ہر شخص کلکم راعی وکلکم مسئول عن رعیتہ،والی حدیث پر  عمل کرے،ہمارا کام پڑھ کر صرف پڑھانا نہیں بلکہ لوگوں کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت بھی کرنی ہے آپ اگر خود اپنا قافلہ نہیں نکال سکتے تو ہر ماہ دعوت اسلامی کے قافلے میں شامل ہوجایا کریں ،یہ سوچ کر اگر بیٹھے رہیں گے کہ ہم تو ٹھیک اور نیک ہیں لوگ خراب ہو رہے ہیں تو ہونے دیں تو وہ دن دور نہیں کہ جب پوری قوم ان کے دام فریب میں آجائے گی اور جب وہ آپ کے چاروں طرف  اپنی مساجد ومدارس قائم کردیں گے تو آپ کس کو پڑھا ئیں گے  آپ خود بھی ہلاک ہوں گے اور لوگ بھی ہلا ک جائیں گے ۔بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے عذاب دینے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا تو اس فرشتہ نے اللہ  تعالی کی بارگاہ میں عرض کی اے اللہ   اس میں تیرا ایک عابد وزاہد بندہ  بھی ہے اللہ تعالی نے فرمایااسے بھی ان لوگوں کے ساتھ ہلاک کردے اگرچہ یہ عابد وزاہد ہے لیکن لوگوں کو گناہ میں مبتلا دیکھ کر اس کے چہرہ پر غمگینی کے آثار کبھی ظاہر نہیں ہوئے ، اس روایت کو بار بار پڑھیں  اور خود کے اندر غور کریں کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کے وارث ہونے کا حق ادا کررہے ہیں اگر جواب نہیں میں ہے تو خدارا اپنی روش کو بدلیں  کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن رسو ل اللہ ﷺ فرمائیں  میں نے تمہیں اپنے علم کا وارث بنایا تھا تم نے اس وراثت کا حق ادا نہ کیا ۔
مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ میری یہ تحریر بعض لوگوں کے دلوں میں بہت تکلیف دے گی لیکن حالات نے مجھے سب کچھ لکھنے پر مجبور کردیا ہے آپ اسے تعصب کی عینک اتار کر پڑھیں گے تو ان شاء اللہ اچھی لگے گی  میری اس تحریر کو کسی شخصیت سے منسوب نہ کیا جائے اگر کسی پر یہ باتیں صادق آتی ہوں تو وہ اپنی زندگی کو رخ بدلے۔
محمد گل ریز رضا مصباحی ،مدنا پوری ،بہیڑی،بریلی شریف یوپیMob: 9458201735. 8057889427  

Post a Comment

0 Comments