Sawanah mufti mujeeb سوانح مفتی مجیب اشرف

سوانح مفتی مجیب اشرف 
مختصر سوانح خلیفہ مفتی اعظم ہند مفتی اعظم مہاراشٹر، اشرف الفقہا حضرت علامہ مفتی مجیب اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۔

ولادت۔آپ کی ولادت باسعادت آپ کے وطن مالوف قصبہ گھوسی، ضلع مئو کے محلہ کریم الدین(یوپی) کے خوشحال علم دوست گھرانے میں مورخہ 2/رمضان المبارک 1356ھ مطابق 6/نومبر 1937ء بروز سنیچر صبح کے وقت ہوئی ۔

شجرہ نسب۔۔حضرت مفتی مجیب اشرف صاحب ابن حضرت الحاج محمد حسن صاحب ابن حضرت حافظ محمد جمیع اللہ صاحب ابن شیخ الحفاظ حضرت الحاج الحافظ احمد صاحب علہیم الرضوان۔
تعلیم۔آپ کی تعلیم ابتدا سے اخیر تک قابل اور لائق وفائق اساتذہ کی نگرانی میں ہوئی ۔قرآن شریف ناظرہ محلہ کریم الدین پور کے ایک بزرگ جناب میانجی محمد تقی سے پڑھا ۔اردو اور حساب وغیرہ درجہ چہارم تک کی تعلیم مدرسہ شمس العلوم گھوسی میں ہوئی، پرائمری درجہ چہارم پاس کرنے کے بعد اسی مدرسہ میں فارسی کی ابتدائی کتابیں حضرت مولانا سمیع اللہ صاحب علیہ الرحمۃ امجد نگر گھوسی سے پڑھیں اس کے بعد فارسی کی دیگر کتابیں تین سال تک حضرت مولانا سعید خان صاحب علیہ الرحمۃ(فتح پور گھوسی)  سے پڑھیں ۔عربی کی چند ابتدائی کتابیں اپنے چچاحضرت مولانا شمس الدین صاحب سے اور باقی کتابیں کافیہ تک  شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق صاحب. امجدی علیہ الرحمۃ سے پڑھیں۔
1951ء میں شارح بخاری  بحکم حضور حافظ ملت محدث مرادآبادی دارالعلوم فضل رحمانیہ پچیڑا ضلع گونڈہ(یوپی) تشریف لے گئے آپ بھی اپنے استاذ محترم کے ساتھ اسی مدرسہ میں چلے آئے یہاں دو سال رہ کر شرح جامی تک کی کتابیں شارح بخاری سے پڑھیں ۔اس وقت دار العلوم فضل رحمانیہ میں شہزادہ صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا قاری رضاء المصطفے صاحب امجدی دامت برکاتھم العالیہ مدرس تھے ان سے بھی چند کتابیں پڑھیں۔
1953ءمیں حضرت شارح بخاری، حضور سرکار مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفی رضا نوری علیہ الرحمۃ کی طلب پر بریلی شریف تشریف لے گیے آپ بھی اپنے استاذ محترم کے ہمراہ حاضر ہوئے ۔وہاں مرکزی دار العلوم مظہر اسلام میں تعلیم مکمل فرمائی ۔1957ءمیں آپ کی فراغت ہوئی دار العلوم مظہر اسلام میں جن اساتذہ سے اکتساب علم کیا ان کے اسماے گرامی یہ ہیں۔
(1).فقیہ العصر، نائب مفتئ اعظم ہند، شارح بخاری، مفتی شریف الحق صاحب امجدی علیہ الرحمہ۔
(2).شیخ العلماء مولانا مفتی غلام جیلانی علیہ الرحمہ (آپ کے سگے ماموں جان). 
(3).صدر العلما مولانا مفتی ثناء اللہ امجدی اعظمی علیہ الرحمہ (مظہر اسلام بریلی شریف). 
(4).شیخ المعقولات، مولانا معین الدین خان صاحب علیہ الرحمہ (فتح پور قصبہ گھوسی) 
(5).صدر العلما مفتی تحسین رضا خان صاحب بریلوی علیہ الرحمہ 
مذکورہ بالا اساتذہ میں سے آپ نے سب سے زیادہ کتابیں حضور شارح بخاری سے پڑھیں۔اس لیے اکثر فرمایا کرتے کہ حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق صاحب قبلہ میرے استاذ کل ہیں ۔آپ نے چند کتابوں کے علاوہ اول تا آخر زیادہ تر کتابیں آپ ہی سے پڑھی ہیں ۔حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ اپنے اس علمی اور روحانی فرزند پر ناز فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں میرا ایک ہی شاگرد مجیب اشرف ایسا ہے جس نے اول تاآخر میرے پاس رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کی ہے ۔
حضرت شارح بخاری کواپنے اس شاگرد رشید پر کس قدر ناز تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1992ءمیں حضرت مفتی مجیب اشرف صاحب عرس قاسمی میں شرکت کی غرض سے مارہرہ مطہرہ حاضر ہوئے، بعد نماز مغرب صاحب سجادہ حضور احسن العلماء حضرت مصطفی حیدر حسن میاں علیہ الرحمہ سے شرف ملاقات کے لیے مجلس میں حاضر ہوئے وہاں پہلے سے شارح بخاری مفتی شریف الحق تشریف فرماتھے حضرت کو دیکھ کر شارح بخاری بہت خوش ہوئے اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا ۔اور سرکار احسن العماء سے تعارف کراتے ہوئے فرمایا ۔
حضور یہ مجیب اشرف، حضرت شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی صاحب اور رئیس الاذکیاء مولانا غلام یزدانی صاحب اعظمی کے بھانجے ہیں ۔اور میرا وہ شاگرد ہے کہ کل قیامت میں میرے رب نے اگر مجھ سے سوال کیا کہ شریف الحق کیا لایا ہے(یہ کہ کر حضرت رونے لگے اور بھرائی آواز میں فرمایا) تو عرض کردوں گا مجیب اشرف کو لایا ہوں ۔یہ سن کر حاضرین اور خود احسن العلماء علیہ الرحمہ کی آنکھیں نمناک ہوگئیں ۔حضور احسن العلماء نے اس وقت آپ کے سر اور سینے پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں ۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور اشرف الفقہا پر حضور مفتی شریف الحق صاحب کو کتنا ناز تھا۔

درس وتدریس۔۔1957ءمیں آپ کی فراغت ہوئی 1958ء میں وسط ہند کی مشہور ومعروف قدیم درسگاہ جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور کو ایک قابل نائب شیخ الحدیث کی ضرورت تھی بانی جامعہ حضرت علامہ مفتی عبد الرشید صاحب قبلہ علیہ الرحمہ (فتح پوری )نے حضور مفتی اعظم ہند اور مفتی شریف الحق صاحب کو ایک خط لکھ کر روانہ کیا کہ جامعہ عربیہ کے لیے ایک لائق وقابل نائب شیخ الحدیث کی ضرورت ہے لہذا آپ روانہ فرمائیں ۔دونوں بزرگوں کی نظر انتخاب حضور اشرف العلماء پر پڑھی اور کم عمر عالم نبیل کو ناگ پور بھیج دیا ۔
آپ نے جامعہ عربیہ کی شاخ کامٹی میں دوسال تک منصب صدارت پر رہ کر خدمات انجام دیں چند سال تک آپ نے نائب شیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں پھر آپ نے جامعہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور 1966ءمیں الجامعۃ الرضویہ دار العلوم امجدیہ ناگ پور کی داغ بیل ڈالی ۔

آپ کے مشہور تلامذہ۔
یوں تو آپ کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن کچھ کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔(1).حضرت علامہ مولانا سید محمد حسینی صاحب قبلہ آستانہ عالیہ شمسیہ، رائچور۔
(2).حضرت علامہ مولانا عبد الغنی صاحب علیہ الرحمہ۔
(3).مفتی اندور حضرت مفتی حبیب یار خان صاحب قبلہ۔
(4).حضرت علامہ مولانا مفتی نسیم صاحب صاحب شیخ الحدیث رضا دار الیتامی  ناگ پور ۔
(5).حضرت علامہ مولانا عبدالحبیب صاحب قبلہ بانی رضا دار الیتامی، ناگ پور ۔
بیعت وخلافت۔آپ نے اپنے زمانہ طالب علمی میں 24صفر المظفر 1375ء کو حضور مفتی اعظم ہند کے دست حق پر بیعت کی 
اور حضور مفتی شریف الحق صاحب قبلہ امجدی علیہ الرحمہ کے ساتھ اسی روز سلسلہ عالیہ قادریہ، برکاتیہ، رضویہ کے تعویذات، اعمال اور نقوش کی تحریری اجازت عنایت فرمائی ۔
تصنیفات۔۔آپ نےکثیر مشاغل کے باوجود کچھ کتابیں بھی تالیف فرمائیں جن میں سے جو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں وہ یہ ہیں۔(1).خطبات کولمبو ۔(2).ارشاد المرشد۔(3).تحسین العیادۃ۔(4).پیکر استقامت وکرامت (حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ) 

وصال۔ 6/اگست 2020ءبروز جمعرات دس بج کر چالیس منٹ پر ناگ پور مہاراشٹر میں وصال ہوگیا۔
اللہ تعالی حضرت کی بے حساب مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے ان کے فیوض وبرکات سے ہمیں مالا مال فرمائے ۔
۔۔
محمد گل ریز رضا مصباحی بریلی شریف۔
جامعۃ المدینہ فیضان عطار ناگ پور 
6/اگست 2020ءبروز جمعرات۔

Post a Comment

0 Comments